موسم سرما عروج پر ہے۔ شاہراہیں تودھند کی لپیٹ میں ہیں لیکن ملک کے سیاسی موسم پر بھی انجانی سیاسی دھند چھارہی ہے۔بے یقینی بڑھتی جا رہی ہے اور ایک انجانا سا احساس ذہنوں میں پیدا ہو رہا ہے کہ کچھ تو ہونے والا ہے جسے کوئی بتانے والا نہیں یا بتانے کو تیار نہیں یا بتانے میں پہل کرنے کو تیار نہیں۔ سال دو ہزار تیرہ عام انتخابات کا سال ہے۔ اگر چہ ابھی الیکشن شیڈول کا باقاعدہ اعلان نہیں ہوا ہے لیکن نہ جانے کیوں سیاسی حلقے برملا اس بات کے خدشات ظاہر کر رہے ہیں کہ عام انتخابات ملتوی کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں یا جمہوری نظام کی بساط لپیٹنے کے بارے میں کہیں پلان بن رہا ہے۔ یہ باتیں گلی کوچوں میں نہیں ہو رہیں بلکہ ملک کی مقتدر شخصیات اور سیاست دان ان خدشات کا کھلے عام اظہار کر رہے ہیں۔ اور ایسی کسی صورتحال میں مزاحمت کا اعلان بھی کر رہے ہیں۔ اپوزیشن حکومت پر شک کر رہی ہے کہ وہ انتخابات کا التواء چاہتی ہے اور حکومت نہ جانے کس پر اپنے شکوک کا اظہار کر رہی ہے لیکن حسب دستور کوئی پاکستانی عوام کو بتانے کی زحمت نہیں کر رہا کہ ان سیاست دانوں کی دانست میں جمہوری نظام لپیٹنے کی سازشیں آخر کہاں تیار ہو رہی ہے اور کون کر رہا ہے۔ آخر وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کیوں یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ عام انتخابات مقررہ وقت پر ہی ہونگے، ایک دن کی تاخیر بھی نہیں ہوگی اگر” کسی“ کے دل میں خام خیالی ہے کہ وہ جمہوریت کو پٹری سے اتار دے گا یا جمہوری نظام کیخلاف کسی سازش میں کامیاب ہوجائے گا تو میں واضح الفاظ میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ وہ جمہوری نظام کو ڈی ریل نہیں کرسکے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں آئندہ چند ماہ بہت اہم ہیں کیونکہ جمہوری حکومت کی مدت پوری ہو رہی ہے اور آئندہ چند ماہ بعد عام انتخابات منعقد ہوں گے اور انتقال اقتدار کا مرحلہ آئیگا۔ چند دن پہلے صدر آصف زرداری نے محترمہ بینظیر بھٹو کی برسی میں اپنے خطاب میں ان ہی خدشات کا اظہار کیا اور یہ بھی کہا کہ مصری ماڈل ملک میں نہیں آنے دیا جائے گا۔ مصری ماڈل کون چاہتا ہے اور کون لانا چاہتا ہے اور کیسے لانا چاہتا ہے کسی نے ان سے ابھی تک نہیں پوچھا۔ سیاسی جماعتیں یا تو سیاسی بے یقینی کا شکار ہو رہی ہیں یا وہ آنے والے متوقع حالات کو بھانپتے ہوئے نئی پیش بندیوں میں مصروف ہیں۔ دن بدن ملک میں نئی سیاسی صف بندیاں بھی دیکھنے کو مل رہی ہیں اور آگے آگے نہ جانے کیا کیا دیکھنے کو ملنے والا ہے۔ لبرل سیاست کرنے والی جماعتیں زور پکڑتے مذہبی اتحادوں سے پینگیں بڑھا رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی پنجاب میں ایک مذہبی اتحاد سے انتخابی اتحاد کی کوشش کررہی ہے اور حیرت انگیز طور پر ایم کیو ایم پیپلز پارٹی سے دور اور طاہر القادری سے قریب ہو رہی ہے ۔ ایم کیو ایم طاہر القادری کے انقلابی لانگ مارچ میں بھی شامل ہو رہی ہے ۔تئیس دسمبر کو مینار پاکستان پر کودنے والے طاہر القادری کہہ رہے ہیں کہ ہماری بقاء 14جنوری کے عوامی لانگ مارچ پر ہے اوراللہ تعالیٰ کی طاقت کے سوا اب دنیا کی کوئی طاقت ہمیں پیچھے نہیں ہٹا سکتی۔ الطاف حسین قائد اعظم کے لبرل پاکستان کی باتیں کرتے کرتے اچانک ملک میں خلافت راشدہ جیسا نظام رائج دیکھنا چاہتے ہیں۔ظاہر ہے کہ مروجہ انتخابی طریقہ کار سے تو ایسا نظام قائم نہیں ہو سکتا تو وہ آخر کیا چاہ رہے ہیں؟ اور پارلیمنٹ سے باہر سیاسی عمل سے دور طاہر القادری کی جماعت یا کسی اور مذہبی گروپ سے انہیں سیاسی طور پر کیا حاصل ہونے والا ہے؟ اس لانگ مارچ کے پیچھے کون ہو گا؟ کیا کہیں سے کوئی پکا اشارہ ملا ہے؟ طاہر القادری اور ایم کیو ایم ملک میں جن اصلاحات کی باتیں کرتے ہیں اور جن برائیوں کو دور کرنا چاہتے ہیں وہ یا تو پالیمنٹ کی مدد سے ہو سکتی ہیں یا کسی سخت گیر ڈکٹیٹر کے کہنے سے۔۔ مروجہ سیاسی نظام میں تو ایسی پارلیمنٹ کا آنا ممکن نہیں جو یہ سب کر سکے تو کیا لانگ مارچ کا مقصد وہی تو نہیں جس کا اظہار سب سیاسی جماعتیں کر رہی ہیں؟ کیا دانستہ لبرل سیاسی جماعتوں کو کمزور اور فرقہ ورانہ مذہبی اتحاووں کی سر پرستی کی جا رہی ہے؟ کیا سیاسی جماعتیں شدت پسندوں کے آگے گھٹنے ٹیک رہی ہیں؟ کیا اسلام آباد میں کوئی التحریر اسکوائر بنانے کی کوشش ہو رہی ہے؟ پاکستان کے موجودہ سیاسی نظام میں مصری ماڈل کا خیال کہاں سے آیا؟ کیا چالیس لاکھ کی عوامی پارلیمنٹ کے نام پر کسی مخصوص شخص کو بطور نگراں وزیر اعظم مسلط کرنے کی کوشش ہو رہی ہے؟ ملک معاشی تباہی کے دہانے پر ہے، ہر طرف سے بد ترین دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ دہشت گردوں کو روکنے والا کوئی نہیں۔ افواج پاکستان کے سپہ سالار کہتے ہیں کہ ملک کو ایسے دشمن کا سامنا ہے جس کے خدوخال واضح نہیں۔ یعنی ملک کے دفاع کے لئے انہیں اس غیر روایتی دشمن کی واضح پہچان نہیں جس سے انہیں لڑنا ہے۔ ملالہ پر حملے اور بشیر بلور کی شہادت کے موقع پر پوری قوم اپنے دشمنوں کو پہچانتے ہوئے ان کے خلاف کاروائی کے لئے متحد تھی لیکن اگر رکھوالوں کو اس دشمن کی ابھی تک پہچان نہیں ہو رہی تو اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوگی۔ سیاسی مایوسی کی اس دھند کے آگے جو انتہا پسندی کی گہری کھائی ہے لگتا ہے قوم اس میں اجتماعی خودکشی کرنے جا رہی ہ